تقسیم ہو گیا ہوں میں اپنی ہی ذات میں
جیسے کوئی تضاد ہو دو شخصیات میں
وہ نکتہ چیں ہے بات نکالے گا بات سے
اس واسطے میں بات ملاتا ہوں بات میں
اک لطفِ آگہی کی تمنا لیے ہوئے
چپ چاپ میں کھڑا ہوں تِری کائنات میں
لے کر ادھار دن سے خیالات کے عذاب
اکثر دماغ حشر اٹھاتا ہے رات میں
فطرت سے آشنا ہیں جب اپنے عدو کی ہم
پھر کیوں سقم تلاش کریں نفسیات میں
نکلی پتنگ وقت کی ہاتھوں سے ایک بار
پھر اس کے بعد آئی نہیں ڈور ہات میں
کرنی ہے تُو نے بات حسن جو ہجوم سے
پہلے وہ کر کے دیکھ ذرا پانچ سات میں
احتشام حسن
No comments:
Post a Comment