رات ہوئی تو دن کے صدمے اس کی گود میں کانپ رہے ہیں
واعظ ، ملّا، داعی، سارے مکر کی مالا جاپ رہے ہیں
ایک دعا بس بھٹک رہی تھی، اک خواہش جو پھیل چکی ہے
لفظوں کے انبار بھی سمٹے کب سے بیٹھے ہانپ رہے ہیں
مُردہ بیلیں لے کر دلدل آن ملی ہے دریاؤں سے
اُجلےاور رنگین لبادے بھوک کی صورت چھاپ رہے ہیں
آج ندامت قطرہ قطرہ پگھلی تو دل بھر آیا ہے
اس کے دامن سے لپٹے یہ دھاگے پہلے سانپ رہے ہیں
زندہ غم بھی اپنے اپنے مرقد کے ہرکارے ہوں گے
سب اندیشے خود سے الجھے، یہ تبدیلی بھانپ رہے ہیں
سعدیہ بشیر
No comments:
Post a Comment