غموں کی دھوپ میں اِک سائبان ہے میرا
میں اک زمین ہوں تُو آسمان ہے میرا
یہیں کہیں سے ابھی کوئی تِیر آئے گا
یہیں کہیں پہ کوئی مہربان ہے میرا
اُتر چکا ہے تِرا ہجر میری رگ رگ میں
وصالِ یار! یہ دُکھ جاوِدان ہے میرا
اُسے کہو کہ میں رہتا ہوں دھیان میں اُس کے
اُسے کہو کہ مکاں بے نشان ہے میرا
میں تیرے نام کا رکھتا ہوں طوق سینے پر
اِسی لیے تو جہاں قدردان ہے میرا
جوازِ زندگی تیرے سوا نہیں کچھ بھی
مِرا غرور ہے اور تُو ہی مان ہے میرا
تِرے اشارے پہ چلتی ہے جسم کی کشتی
تِرا دوپٹہ ہے یا بادبان ہے میرا
ساحل سلہری
No comments:
Post a Comment