Monday 28 February 2022

گمنام بستیوں کا پتہ کس طرح چلے

 گمنام بستیوں کا پتہ کس طرح چلے

شہروں کے جسم وقت کی دلدل میں دھنس چکے

دہلیز پر کھڑا ہوا سورج پلٹ نہ جائے

شمعیں بجھا کے بند کواڑوں کو کھولیۓ

ہم عمر بھر بھٹکتے رہے اپنے آپ میں

صحرا میں اپنے گھر کا پتہ کس سے پوچھتے

پیڑوں کی لاشیں فرشِ زمیں پر بکھر گئیں

پتوں کے زرد شہر ہواؤں کی زد پہ تھے

سورج کا قتل کتنے اندھیروں کو بو گیا

یہ جانتے تو دن کے اجالوں کو پوچھتے

اب ان کو ڈھونڈنے کے لیے آئے ہو سروش

وہ زرد زرد لوگ تو مدت ہوئی گئے


حامد سروش

No comments:

Post a Comment