گمنام بستیوں کا پتہ کس طرح چلے
شہروں کے جسم وقت کی دلدل میں دھنس چکے
دہلیز پر کھڑا ہوا سورج پلٹ نہ جائے
شمعیں بجھا کے بند کواڑوں کو کھولیۓ
ہم عمر بھر بھٹکتے رہے اپنے آپ میں
صحرا میں اپنے گھر کا پتہ کس سے پوچھتے
پیڑوں کی لاشیں فرشِ زمیں پر بکھر گئیں
پتوں کے زرد شہر ہواؤں کی زد پہ تھے
سورج کا قتل کتنے اندھیروں کو بو گیا
یہ جانتے تو دن کے اجالوں کو پوچھتے
اب ان کو ڈھونڈنے کے لیے آئے ہو سروش
وہ زرد زرد لوگ تو مدت ہوئی گئے
حامد سروش
No comments:
Post a Comment