Monday, 28 February 2022

اک نشتر نگاہ ہے اس سے زیادہ کیا

اک نشترِ نگاہ ہے اس سے زیادہ کیا

دم بھر کی آہ آہ ہے اس سے زیادہ کیا

گردن سے طوقِ خوف و طلب کو نکال دیکھ

پھر کوئی بادشاہ ہے اس سے زیادہ کیا

طاقت اگر ہے پاؤں میں صحرا کا خوف کیوں

بس اک کشادہ راہ ہے اس سے زیادہ کیا

وہ تو ہوا تھی بند نہ مٹھی میں ہو سکی

اب رنج خواہ مخواہ ہے اس سے زیادہ کیا

بالوں کو اپنے چھوڑ مِری شام غم کو دیکھ

پھر دیکھ کچھ سیاہ ہے اس سے زیادہ کیا

ہر چند آج بھی ہے وہی کثرتِ امید

ہاری ہوئی سپاہ ہے اس سے زیادہ کیا

اک کنکری اچھال کے توڑو طلسم تاب

پانی میں عکس ماہ ہے اس سے زیادہ کیا

ہیں کامیاب جن کا یہاں جی نہیں لگا

دنیا کی درسگاہ ہے اس سے زیادہ کیا

خونِ جگر سے شعر لکھو اور ماحصل

دم بھر کی واہ واہ ہے اس سے زیادہ کیا


محمد اعظم

No comments:

Post a Comment