Sunday, 27 February 2022

کبھی تو دست ہمہ گیر میں سبو ہو جائے

 کبھی تو دست ہمہ گیر میں سبو ہو جائے

یہ خاک بھی کبھی آسودۂ نمو ہو جائے

بیاضِ دل💗 پہ تِرا نقش آشکارا ہو

پھر اس کے بعد تِری دید کو بہ کو ہو جائے

نہیں کہ رنگ حِنا میرے ہاتھ پر نہ کھلا

ہتھیلیوں کو یہ ضد تھی کہ دل لہو ہو جائے

وہ اور ہیں کہ جو سامان زیست مانگتے ہیں

پہ اس قدر ہو کہ سامان آبرو ہو جائے

یہ اذن روز ازل عشق کو دیا نہ گیا

کہ مبتلائے ہوس کوئی آرزو ہو جائے

وہ فتنہ گر کہ کبھی کھینچ لے بدن سے لہو

کبھی وہ چشم سیہ کار آب جو ہو جائے

بحال ہو جو تکلم کا سلسلہ تو عبیر

تِرے نصیب پہ شاید کہ گفتگو ہو جائے


عبیرہ احمد

No comments:

Post a Comment