ذرا سا بولو
ذرا سا بولو، زباں تو کھولو
سخن کے در، دیکھو جل رہے ہیں
خموش آہیں بلک رہی ہیں
سسکتے شعلے ابل رہے ہیں
شکستگی کا دھواں نہ دیکھو
غبار آخر غبار ہو گا
دھنک، رُخوں پر بکھر پڑے گی
دلوں میں باہم قرار ہو گا
فریب ہم کو خزاں نہ دے گی
بہار ہونا، بہار ہو گا
گھٹن کا بن تک اجاڑ دیں گی
ہوائیں خوشبو کی باس لے کر
کھلے گی منزل کی موشگافی
دلوں میں دل کی شناس لے کر
چمک اٹھیں گے بجھے بیاباں
افق کے جیسا لباس لے کر
مگر زباں کے بھرم کی خاطر
ہمیں کو آخر تو بولنا ہے
وہ بھید مسند نشینیوں کا
جزا کا دفتر، سزا کا دفتر
جو کھولنا ہے وہ کھولنا ہے
جو تولنا ہے وہ تولنا ہے
حمزہ ہاشمی سوز
No comments:
Post a Comment