مقدر نے کہاں کوئی نیا پیغام لکھا ہے
ازل ہی سے ورق پر دل کے تیرا نام لکھا ہے
قدم میں جانب منزل بڑھاؤں کیا کہ قسمت نے
جہاں آغاز لکھا تھا وہیں انجام لکھا ہے
شکایت کیا کروں ساقی سے میں اس کے تغافل کی
مِرے ہونٹوں کے حصے ہی میں خالی جام لکھا ہے
ہمیں ہیں منتخب روزِ ازل سے درد کی خاطر
ہمارے نامۂ قسمت میں ہر الزام لکھا ہے
مسلسل غم مسلسل درد سے تنگ آ کے اے ساحل
ہم ایسے اہل فرقت نے سحر کو شام لکھا ہے
ساحل قادری
No comments:
Post a Comment