Sunday 27 February 2022

دن بہ دن دریا سوکھے پڑ رہے ہیں

 دن بہ دن دریا سوکھے پڑ رہے ہیں

خشک آنکھوں سے خواب جھڑ رہے ہیں

اس ہوا سے بھی ڈر گئے ہو تم 

جس ہوا سے چراغ لڑ رہے ہیں

ان کے چہرے یہی تھے پہلے بھی

جن کے چہرے ابھی بگڑ رہے ہیں

جو بٹھائے گئے تھے پیروں میں

اب وہی لوگ سر پہ چڑھ رہے ہیں

قہقہہ ایک ہی لگایا تھا

زخم کتنے مگر اُدھڑ رہے ہیں

چلو اس کا تو حق ہے مان لیا

لوگ کس بات پر اکڑ رہے ہیں؟

جن کی رفتار تھی قیامت کل

آج بیساکھیاں پکڑ رہے ہیں

اس کو کپڑے بدلتے دیکھا ہے

شرم سے آئینے سکڑ رہے ہیں

ایک لمحہ نہیں اضافی ملا

شکر ہے وقت پر بچھڑ رہے ہیں

بڑھ رہا ہوں میں خادثوں کی سمت

حادثے میری سمت بڑھ رہے ہیں

یوں اجڑ کر کوئی دکھائے ہمیں

جس طرح آج ہم اجڑ رہے ہیں

دل ہمارا اداس ہے حیدر

رنگ دیوار کے اکھڑ رہے ہیں


فقیہہ حیدر

No comments:

Post a Comment