دن بہ دن دریا سوکھے پڑ رہے ہیں
خشک آنکھوں سے خواب جھڑ رہے ہیں
اس ہوا سے بھی ڈر گئے ہو تم
جس ہوا سے چراغ لڑ رہے ہیں
ان کے چہرے یہی تھے پہلے بھی
جن کے چہرے ابھی بگڑ رہے ہیں
جو بٹھائے گئے تھے پیروں میں
اب وہی لوگ سر پہ چڑھ رہے ہیں
قہقہہ ایک ہی لگایا تھا
زخم کتنے مگر اُدھڑ رہے ہیں
چلو اس کا تو حق ہے مان لیا
لوگ کس بات پر اکڑ رہے ہیں؟
جن کی رفتار تھی قیامت کل
آج بیساکھیاں پکڑ رہے ہیں
اس کو کپڑے بدلتے دیکھا ہے
شرم سے آئینے سکڑ رہے ہیں
ایک لمحہ نہیں اضافی ملا
شکر ہے وقت پر بچھڑ رہے ہیں
بڑھ رہا ہوں میں خادثوں کی سمت
حادثے میری سمت بڑھ رہے ہیں
یوں اجڑ کر کوئی دکھائے ہمیں
جس طرح آج ہم اجڑ رہے ہیں
دل ہمارا اداس ہے حیدر
رنگ دیوار کے اکھڑ رہے ہیں
فقیہہ حیدر
No comments:
Post a Comment