ہجر بن کے جو پھر عذاب آیا
خشک آنکھوں میں بن کے آب آیا
خواب ٹوٹے تو بے حسی ٹوٹی
چشمِ تر میں جو سیلِ آب آیا
اب تو دکھ پر بھی غم نہیں ہوتا
دل کی دھڑکن میں انقلاب آیا
پھول کھلنے لگے محبت کے
جب بھی جذبوں پہ اک شباب آیا
ہم نے مانا، حسین ہے دنیا
پیار تجھ پہ کیوں بے حساب آیا
یہ تو دنیا ہے اب تصور جی
کس کی قسمت میں کب گلاب آیا
نیلما تصور
No comments:
Post a Comment