Monday, 28 February 2022

ہجر بن کے جو پھر عذاب آیا

 ہجر بن کے جو پھر عذاب آیا

خشک آنکھوں میں بن کے آب آیا

خواب ٹوٹے تو بے حسی ٹوٹی

چشمِ تر میں جو سیلِ آب آیا

اب تو دکھ پر بھی غم نہیں ہوتا

دل کی دھڑکن میں انقلاب آیا

پھول کھلنے لگے محبت کے

جب بھی جذبوں پہ اک شباب آیا

ہم نے مانا، حسین ہے دنیا

پیار تجھ پہ کیوں بے حساب آیا

یہ تو دنیا ہے اب تصور جی

کس کی قسمت میں کب گلاب آیا


نیلما تصور

No comments:

Post a Comment