Friday, 1 April 2022

ملتا ہے مجھ سے یار مگر دور دور سے

ملتا ہے مجھ سے یار مگر دور دور سے

لوٹا ہے میرے دل کا نگر دور دور سے

تاروں کے جُھرمٹوں میں تھا شب بھر گھرا ہوا

دیکھا گلی میں ہم نے قمر دور دور سے

دن رات ہم نے کاٹ دئیے تیرے دھیان میں

لگتا خدا ہے ایک بشر دور دور سے

آنکھیں تِری یہ ہونٹ یہ عارض کھلے کھلے

دیکھے ہیں ہم نے لعل و گہر دور دور سے

نزدیک آ کے دیکھا تو شاخیں سبھی تھیں خشک

ہم کو ہرے لگے تھے شجر دور دور سے

آنکھوں کی اس نمی کو نہ محسوس کر سکو

تم دیکھو ہم کو جاناں اگر دور دور سے


ماورا عنایت

No comments:

Post a Comment