ملتا ہے مجھ سے یار مگر دور دور سے
لوٹا ہے میرے دل کا نگر دور دور سے
تاروں کے جُھرمٹوں میں تھا شب بھر گھرا ہوا
دیکھا گلی میں ہم نے قمر دور دور سے
دن رات ہم نے کاٹ دئیے تیرے دھیان میں
لگتا خدا ہے ایک بشر دور دور سے
آنکھیں تِری یہ ہونٹ یہ عارض کھلے کھلے
دیکھے ہیں ہم نے لعل و گہر دور دور سے
نزدیک آ کے دیکھا تو شاخیں سبھی تھیں خشک
ہم کو ہرے لگے تھے شجر دور دور سے
آنکھوں کی اس نمی کو نہ محسوس کر سکو
تم دیکھو ہم کو جاناں اگر دور دور سے
ماورا عنایت
No comments:
Post a Comment