میرا منتظر
کسی کے قدم دھیرے دھیرے
مرے دل کی سرحد کو چُھونے لگے ہیں
وہ دستک مِرے دل پہ دینے لگے ہیں
محبت تو مجھ پر برسنے لگی ہے
مِری روح جل تھل وہ کرنے لگی ہے
مگر، میں ابھی تو
گِھری ہوں تذبذب میں اور
مبتلا ہے شش و پنج میں دل
اسے دیکھتی ہوں، اسے سوچتی ہوں
زباں گُنگ ہے میری، لیکن
محبت تو مجھ پر برسنے لگی ہے
مِری روح جل تھل وہ کرنے لگی ہے
میں جذبے کی شدت کو
حدت کو محسوس کرنے مِیں گم ہوں
کسی ایسے لمحے کی ہوں منتظر میں
جہاں سارے خدشات دم توڑ جائیں
امیدیں، دعائیں مِری رنگ لائیں
عمل سے محبت کا وہ عکس جھلکے
جسے دیکھ کر دل کا منظر بھی بدلے
تذبذب کے سارے نشاں جو مٹائے
فضا ہو معطر، یقیں سر اٹھائے
قدم دھیرے دھیرے، اسی سمت جائے
جہاں پھول تھامے وہ ہاتھوں مِیں اپنے
کھڑا کب سے میرے لیے منتظر ہو
سبیلہ انعام صدیقی
No comments:
Post a Comment