اے خالقِ جہان یہ کیا بن کے آ گئی؟
مخلوق ہم پہ تیری، خدا بن کے آ گئی
بہتر ہوئے شکستہ بدن کیا شفا کے بعد
وہ یادِ خوش جمال وبا بن کے آ گئی
جلنے لگی تھی شمعِ محبت، یہ کیا ہوا
شب کیوں ہمارے بیچ ہوا بن کے آ گئی
کالا لباس سب نے ہے پہنا ہوا مگر
دیکھو وہ باقیوں سے جدا بن کے آ گئی
ہم جب گھٹن سے مرنے لگے تھے تب آئی وہ
بولی کہ لو میں آب و ہوا بن کے آ گئی
کچھ مصرعے پھر رہے تھے مِرے دل میں دربدر
پھر اک غزل کہیں سے عطا بن کے آ گئی
جس کے سبب علیل تھے مہدی، وہ ایک روز
ہاتھوں میں پھول تھامے، دوا بن کے آ گئی
شہزاد مہدی
No comments:
Post a Comment