Thursday, 21 April 2022

یہ میرا شہر وفا اور میں اکیلا آدمی

یہ میرا شہرِ وفا اور میں اکیلا آدمی

میرے لاکھوں آشنا اور میں اکیلا آدمی

ایک ہی سر ہے جھکا سکتا ہوں کس کس کے لیے

ان گنت میرے خدا اور میں اکیلا آدمی

گھومتا پھرتا ہوں شاید مجھ سا کوئی آ ملے

غم کے میلے جا بہ جا اور میں اکیلا آدمی

ہر طرف جنگل ہی جنگل، بستیوں کے درمیاں

شیر، چیتے، اژدہا، اور میں اکیلا آدمی

اپنی تنہائی سے بھی ہوتی نہیں اب گفتگو

بے کراں قیدِ انا اور میں اکیلا آدمی

میرا سایا نہ مر جائے رات کے اس دشت میں

اتنا لمبا راستہ، اور میں اکیلا آدمی

اس کی رحمت کے ہزاروں در مگر وہ بے نیاز

میرے سو دستِ دعا اور میں اکیلا آدمی

درد کے الہام نازل ہو رہے ہیں دم بہ دم

دل کا یہ غارِ حرا اور میں اکیلا آدمی

مل کے حوا سے کیا آباد اسے میں نے قتیل

یہ جہاں میری عطا اور میں اکیلا آدمی


قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment