عکس کی کہانی کا اقتباس ہم ہی تھے
آئینے کے باہر بھی آس پاس ہم ہی تھے
جب شعورِ انسانی رابطے کا پیاسا تھا
حرف و صوت علم و فن کی اساس ہم ہی تھے
فاصلوں نے لمحوں کو منتشر کیا تو پھر
اعتبارِ ہستی کی ایک آس ہم ہی تھے
مقتدر محبت کی شکوہ سنج محفل میں
خامشی کو اپنائے پر سپاس ہم ہی تھے
خواب کو حقیقت کا روپ کوئی کیا دیتا
منعکس تصور کا انعکاس ہم ہی تھے
غالب عرفان
No comments:
Post a Comment