Saturday, 2 April 2022

عکس کی کہانی کا اقتباس ہم ہی تھے

 عکس کی کہانی کا اقتباس ہم ہی تھے

آئینے کے باہر بھی آس پاس ہم ہی تھے

جب شعورِ انسانی رابطے کا پیاسا تھا

حرف و صوت علم و فن کی اساس ہم ہی تھے

فاصلوں نے لمحوں کو منتشر کیا تو پھر

اعتبارِ ہستی کی ایک آس ہم ہی تھے

مقتدر محبت کی شکوہ سنج محفل میں

خامشی کو اپنائے پر سپاس ہم ہی تھے

خواب کو حقیقت کا روپ کوئی کیا دیتا

منعکس تصور کا انعکاس ہم ہی تھے


غالب عرفان

No comments:

Post a Comment