محیط حسن جو اب دم بدم چڑھاؤ پہ ہے
چلا ہے گھر سے اکڑتا بڑے ہی تاؤ پہ ہے
مجھے بتا دے تو رہتا ہے کون سے گھر میں
کہ جس کے کوٹھے سے کوٹھا تِرا لگاؤ پہ ہے
اٹھا کے آنکھ کسے دیکھنے کی تاب ہے آہ
نشست یار اگرچہ بڑے دکھاؤ پہ ہے
ہم اس کی بزم کی حسرت میں ہاتھ ملتے ہیں
یہ جوں جوں سنتے ہیں مجلس بڑے جماؤ پہ ہے
نہ پوچھو بحر محبت میں کچھ ہمارا حال
جو کچھ ہے آفت دریا سو اپنی ناؤ پہ ہے
غضنفرؔ اس سے تو کر لیجو عرض حال اپنا
ابھی نہ بول کہ غصہ میں ہے وہ تاؤ پہ ہے
غضنفر علی
No comments:
Post a Comment