Saturday, 2 April 2022

محیط حسن جو اب دم بدم چڑھاؤ پہ ہے

 محیط حسن جو اب دم بدم چڑھاؤ پہ ہے 

چلا ہے گھر سے اکڑتا بڑے ہی تاؤ پہ ہے 

مجھے بتا دے تو رہتا ہے کون سے گھر میں 

کہ جس کے کوٹھے سے کوٹھا تِرا لگاؤ پہ ہے 

اٹھا کے آنکھ کسے دیکھنے کی تاب ہے آہ 

نشست یار اگرچہ بڑے دکھاؤ پہ ہے 

ہم اس کی بزم کی حسرت میں ہاتھ ملتے ہیں 

یہ جوں جوں سنتے ہیں مجلس بڑے جماؤ پہ ہے 

نہ پوچھو بحر محبت میں کچھ ہمارا حال 

جو کچھ ہے آفت دریا سو اپنی ناؤ پہ ہے 

غضنفرؔ اس سے تو کر لیجو عرض حال اپنا 

ابھی نہ بول کہ غصہ میں ہے وہ تاؤ پہ ہے


غضنفر علی

No comments:

Post a Comment