قدیم دشت کے حالات سے نکلنا ہے
کہ عشق جیسی روایات سے نکلنا ہے
ہمی نے پہلی محبت میں فیصلہ کِیا تھا
کہ دوسری کی خرافات سے نکلنا ہے
دماغ خالی کِیا، بند کرلی ہیں آنکھیں
مزید یہ کہ خیالات سے نکلنا ہے
پتہ نہیں ہے کہاں جانا ہے کہاں کے ہیں
ہمیں تو تیرے مضافات سے نکلنا ہے
ہم ایسے لوگ ہیں جن کے سوال ہوتے نہیں
سو ہم کو اپنے جوابات سے نکلنا ہے
کنارے شام کھڑے سوچتے رہے دونوں
کہ کس طرح ہمیں دن رات سے نکلنا ہے
قریب تھا کہ ہمیں معجزہ کوئی لگتا
سو برگزیدہ کرامات سے نکلنا ہے
ہم آدمی ہیں بنے، ایک دوسرے کے لیے
بس اپنے اپنے مکافات سے نکلنا ہے
خیال ہے یہ زمیں ہی الٹ دی جائے گی
ہمیں خیال کے خدشات سے نکلنا ہے
پگھل رہے ہیں تِرے حسن کے محل میں ہم
کہ برف پوش محلات سے نکلنا ہے
مکانِ دل کہ کھنڈر ہو چکا ہے ویراں بھی
کھنڈر سے ہوتے مکانات سے نکلنا ہے
امتیاز علی عرشی
No comments:
Post a Comment