سجدے قدم قدم پہ گزارے چلے گئے
کچھ بار سر تھے شوق اتارے چلے گئے
منہ موڑ کر حسین نظارے چلے گئے
جب تم گئے تو چاند ستارے چلے گئے
غیرت گہِ شعور تھی منزل پہ ایک دن
ہم اپنی بے خودی کے سہارے چلے گئے
جرأت کہاں کہ جائیں تری بارگاہ میں
ہم پا کے دلنواز اشارے چلے گئے
روٹھا ہوا چلا بھی گیا عالمِ شباب
ہم اس کے پیچھے اس کو پکارے چلے گئے
طوفانِ شوق ہم کو جہاں رو میں لے گیا
بہتے ہوئے کنارے کنارے چلے گئے
راضی چمن کے رنگ کے بے ڈھنگ دیکھ کر
مجبور ہو کے درد کے مارے چلے گئے
خلیل راضی
No comments:
Post a Comment