Tuesday, 21 October 2025

نگار صبح وطن کو ذرا سنورنے دو

 نگار صبح وطن کو ذرا سنورنے دو


نہیں ہے صاف فضائے وطن ابھی لیکن

رُندھا ہوا تھا جو مُدت سے وہ دُھواں تو گیا

کرو نہ غم کہ ہے برہم ابھی نظامِ چمن

خوشی مناؤ کہ سفّاک باغباں تو گیا


دلِ حیات ابھی تک بجھا بجھا ہی سہی

مگر حیات کے چہرے کی جھریاں تو گئیں

سجا نہیں ابھی کاشانۂ امید مگر

وہ یاس کی شرر انگیزیاں تو گئیں


خود اپنے ہاتھ میں اب ہے نظامِ میخانہ

یہ اور بات ہے ہیں تشنہ کام ابھی دو چار

کچھ اور دیر تو چلنے دور ساغر کا

نشے میں چُور نظر آئے گا ہر اک میخوار


نگارِ صبحِ وطن کو ذرا سنورنے دو

ہر ایک ذرت میں سو طُور جگمگائیں گے

چمن کے گُل ہی نہیں خار و خس بھی اے جعفر

کھلیں گے، جھُومیں گے، ناچیں گے، مُسکرائیں گے


جعفر ملیح آبادی

No comments:

Post a Comment