ہوش مندوں کو بھی دیوانہ بنا دیتی ہے
بیخودی بزم میں سو رنگ جما دیتی ہے
عدل و انصاف نہیں حشر کے دن پہ موقوف
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے
وقت کی بات ہے کچھ اور، وگرنہ اکثر
صلح کی بات بھی فتنوں کو ہوا دیتی ہے
سعئ پہیم سے ہی ملتے ہیں مقاماتِ بلند
جستجو عزم کو اک جوش نیا دیتی ہے
حسنِ تنویر کا ہوتا ہے اندھیروں میں نکھار
پارسائی بھی گناہوں میں مزا دیتی ہے
ہجر کی رات جب آجاتی ہے پہلو میں مرے
آستینوں پہ لہو میرا سجا دیتی ہے
اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں بغاوت کا علم
رہبری ہم کو بہر گام دغا دیتی ہے
تُو نے اک دن بھی پکارا نہیں ہم کو مفتی
ہر کلی کِھل کے بہاروں کو صدا دیتی ہے
عبدالستار مفتی
No comments:
Post a Comment