چاروں اور اب پھُول ہی پھُول ہیں کیا گِنتے ہو داغوں کو
ہو توفیق تو دل💕 سے لگاؤ ان نَو رستہ باغوں کو
جلتے صحرا کی موجوں پر گِرتے پڑتے رہرو ہیں
چشمۂ آزادی کے جو اب تک ڈھونڈ رہے ہیں سراغوں کو
بادِ حوادث کی شہ پر خود ان کو راہ دکھاتے ہیں
وقت کے دھارے پر چھوڑا ہے ہم نے ایسے چراغوں کو
کُنجِ قفس گو کُنجِ قفس ہے لیکن اب کے بہاراں میں
ہم نے مہکتا پایا جوشِ تصور گُل سے دماغوں کو
صبحِ روزِ آدمِ نَو ہے، دُھوم مچی ہے گھر گھر میں
ساتھیو اُٹھو صبوحی سے چھلکائیں بھر کے ایاغوں کو
محمد صفدر میر
No comments:
Post a Comment