Monday, 27 October 2025

صدائے کرب اٹھی نعرۂ فراغ لگ

 صدائے کرب اٹھی نعرۂ فراغ لگا

کہیں مکان جلا، دُور سے چراغ لگا

یہ وہ زمیں ہے جہاں تہمتیں ہی اُگتی ہیں

کہا تھا کس نے یہاں نیکیوں کے باغ لگا

ہتھیلیوں میں اسے بھر کے میں تو پی ہی گیا

تھی نرم دھوپ، وہ چہرہ مجھے ایاغ لگا

خود اپنی کھوج میں اک دن نکل پڑے سب لوگ

پھر اس کے بعد کسی کا نہ کچھ سُراغ لگا

بُجھی بُجھی تھیں شبِ خواب سوز سے آنکھیں

طلوعِ صُبح کا منظر بھی داغ داغ لگا

نہ جانے کون سے غم کا شکار تھا یونس

وہ آدمی جو زمانے کو بد دماغ لگا


س یونس

سید یونس

No comments:

Post a Comment