Tuesday, 21 October 2025

سیراب سخن ہوتے ہیں باران قلم سے

 سیرابِ سخن ہوتے ہیں بارانِ قلم سے

لفظوں نے بڑے کھیل کیے عشق میں ہم سے

بس کارگہِ ہوش و خِرد جھَیل رہا ہوں

جی اوب گیا مجلسِ شوریٰ کے بھرم سے

قلعے بھی جلے جاتے ہیں خاشاک کی مانند

وہ آگ اُگلتی ہے زمیں نقشِ قدم سے

وہ روٹھ گئے، شامتِ اعمال پہ روؤ

کیا ٹھیک جو آنسو انہیں راضی کریں ہم سے

محروم ہوئے روزوں کی لذت سے بھی ہیہات

بے کیف تھے ہم ترکِ تراویح کے غم سے


رئیس الشاکری

No comments:

Post a Comment