عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
اگر پرتو فگن نور شہ ابرارﷺ ہو جاتا
جمالِ حق کا آئینہ در و دیوار ہو جاتا
جو مثلِ بوئے گیسو پھیلتا رنگ شب گیسو
گنہ گاروں کو ابرِ رحمتِ غفار ہو جاتا
چبھے پاؤں میں خار راہِ طیبہ کیا قیامت ہے
یہ کانٹا دل میں رہتا یا جگر کے پار ہو جاتا
نصیبوں سے اگر وہ خواب میں جلوہ فزا ہوتے
مچل کر ان کے قدموں پر فدا سو بار ہو جاتا
وہ اعجازِ تکلم تھا کہ منہ سے پھول جھڑتے تھے
اگر کافر بھی سن لیتا تو وہ دیندار ہو جاتا
سرِ اقدس تو کیا پائے مبارک کا یہ رتبہ ہے
جو ان کے قدموں پہ سر رکھتا وہی سردار ہو جاتا
یہ سچ ہے دوست کا محبوب بھی محبوب ہوتا ہے
وہ پیارا حق کا ہوتا جس پہ ان کا پیار ہو جاتا
وہ جس کی خاک پا غازہ ہے روئے عرشِ اعظم کا
مِرے دل میں بھی یا رب! جلوہ گر یکبار ہو جاتا
کبھی تو لطف کو وہ چاند سی صورت دکھا دیتے
کبھی اس کا بھی مطلب اے شہِ ابرارﷺ ہو جاتا
مفتی اکرام احمد لطف بدایونی
No comments:
Post a Comment