ہم منصب و اعزاز کے طالب بھی نہیں تھے
پر مجرمِ انکارِ مراتب بھی نہیں تھے
لکھ لیتے تیری چاہ بھی ہم کاغذِ دل پر
افسوس کہ تقدیر کے کاتب بھی نہیں تھے
ابلیس مزاجوں کو بھی برداشت کیا ہے
ہمراہ مِرے چلنے کو راہب بھی نہیں تھے
یہ بات الگ تھا تِرا معیار ہے اعلیٰ
ہم اہلِ مانت نہ تھے، غاصب بھی نہیں تھے
ہم خونِ جگر دے کے ادا کرتے رہے ہیں
وہ قرض زمانے کے جو واجب بھی نہیں تھے
تھا کون سخن فہم وہاں دیتا ہمیں داد؟
مومن نہ تھے سودا نہ تھے غالب بھی نہیں تھے
کچھ کہنا زباں ہی سے ضروری تھا اثر کب
ہم چپ بھی نہ تھے اور مخاطب بھی نہیں تھے
اثر سعید
No comments:
Post a Comment