Friday, 31 October 2025

انفاس گل و لالہ لہو بیز بہت ہے

 انفاسِ گُل و لالہ لہو بیز بہت ہے

اے مطربہ فریاد کے لے تیز بہت ہے

چل کر کسی صحرا کی کڑی دھوپ میں بیٹھو

اشجار کا سایہ تپش آمیز بہت ہے

دروازے بند کر کے جو بیٹھا ہوں گھر میں آج

دم گُھٹتا ہے، باہر کی ہوا تیز بہت ہے

بک جاؤ گے یوسف سی بھی قیمت نہ ملے گی

ہنگامۂ بازار شر انگیز بہت ہے

حامد تِری باتوں میں نہ آئے گا کبھی بھی

مانا، تِرا پیغام دلآویز بہت ہے


حامد لطیف

No comments:

Post a Comment