Wednesday, 22 October 2025

منتشر جب ذہن میں لفظوں کا شیرازہ ہوا

 منتشر جب ذہن میں لفظوں کا شیرازہ ہوا

مجھ کو اک سادہ ورق کے دکھ کا اندازہ ہوا

یوں تو اک چبھتا ہوا احساس تھی اس کی نظر

چوٹ ہی ابھری نہ کوئی زخم ہی تازہ ہوا

موڑنا چاہا تھا میں نے سرپھرے لمحوں کا رخ

دیر میں اجڑی ہوئی شاخوں کو اندازہ ہوا

اپنی پلکوں پر لیے پھرتا رہا نیندوں کا بوجھ

چند خوابوں کا ادا مجھ سے نہ خمیازہ ہوا

نیچی دیواروں کے سائے بھی بڑے ہوتے نہیں

آج اپنے دوستوں سے مل کے اندازہ ہوا

خود سے شرمندہ نظر آئیں گے سارے آئینے

پھر کبھی یکجا اگر چہروں کا شیرازہ ہوا

جب ہوائیں دی گئی عالم مِرے اخلاص کو

ایک چہرہ تھا جو اپنے آپ بے غازہ ہوا


س۔ ش۔ عالم

سید شاہ عالم

No comments:

Post a Comment