درد کچھ کم نہ ہوا اپنا دوا کھانے سے
اعتبار اٹھ گیا ہمدرد دوا خانے سے
اس بڑھاپے میں لگایا ہے انہوں نے سرما
باز آتے نہیں وہ اب بھی ستم ڈھانے سے
ان کے ابا کو رقیبوں نے بہت بھڑکایا
وہ تو اچھا ہوا بھڑکے نہیں بھڑکانے سے
نہ اٹھا پائے وہ مٹکا تو انہوں نے ہم کو
کبھی آنکھوں سے پلائی کبھی پیمانے سے
وہ نہ جاگے کہ ذرا جاگتی تقدیر مری
اور سب جاگ اٹھے کھاٹ کے سرکانے سے
میری لکنت نے مجھے وصل سے رکھا محروم
بات بن بن کے بگڑتی رہی ہکلانے سے
مچھروں نے بھی رقیبوں کی طرح خون پیا
ہم شب وصل نہ فارغ ہوئے کھجلانے سے
یہ نہ عادت ہے ہماری نہ یہ فطرت ویسے
عذر مسرور کو ہرگز نہیں نذرانے سے
مسرور شاہجہانپوری
No comments:
Post a Comment