فتح پانے کی نئی راہ نکالی اُس نے
میرا سر مانگ لیا بن کے سوالی اس نے
اپنی ہی ذات کے گُلشن میں کِیا آ کے قیام
بھُول کر وادیٔ کشمیر و منالی اس نے
قُرب مانگا تو دیا، ہِجر جو مانگا تو دیا
جو کہا میں نے کوئی بات نہ ٹالی اس نے
میں سمجھتا تھا یوں ہی ہو گا ہُنر اس کا مگر
بے مثالی کی بھی تصویر بنا لی اس نے
سنگ زادوں میں شب و روز تھے اس کے لیکن
زندگی پھُول کے پیرائے میں ڈھالی اس نے
بعد مُدت کے ہوا سامنا اس سے جو مِرا
دوسری سمت نظر اپنی گُھما لی اس نے
دُو بدُو جب میں ہوا ذِلت و رُسوائی سے
کی عطا منصبِ عزت پہ بحالی اس نے
اس قدر سادہ طبیعت ہے مِرا یار کہ بس
جو چھُپانی تھی وہی بات اُچھالی اس نے
جانے کس منظرِ صد رنگ میں گُم تھا وہ مجیب
کوئی شے دیکھی نہیں دیکھنے والی اس نے
سید محمد مجیب الحسن
No comments:
Post a Comment