چراغ و طاق پرانے مکاں سے ملتے ہیں
مگر یہ راز کھنڈر کے نشاں سے ملتے ہیں
نگار خانۂ ہستی میں رنگ کیا بھرنا
کہو گے نقش تمہارے فلاں سے ملتے ہیں
وہ جنگجو کسی قاتل سے بھی نہیں ملتے
جو حوصلے مجھے زخمی جواں سے ملتے ہیں
وہ جن کو سنتے ہوئے نیند آنے لگتی ہے
خبر نہیں وہ فسانے کہاں سے ملتے ہیں
غبار و گرد میں شامل یہ خاکسار تِرے
زمیں سے ہوتے ہوئے آسماں سے ملتے ہیں
یقین کی ہی کسی حد میں گم نہ ہو جانا
ہم ایسے لوگ تو وہم و گماں سے ملتے ہیں
اسی لیے تو بچھڑتے ہوئے بھی خوش تھا میں
کہ جو بچھڑتے ہیں وہ داستاں سے ملتے ہیں
حفیظ عامر
No comments:
Post a Comment