Friday, 31 October 2025

سنا ہے وہ بھی ہرجائی بہت ہے

 دل ناداں تمنائی بہت ہے

سنا ہے وہ بھی ہرجائی بہت ہے

وفا کی آس میں اک عمر گزری

جفا میں اس کی گہرائی بہت ہے

تلاطم خیز ہے طوفاں میں کشتی

سمندر سے شناسائی بہت ہے

چلو چل کر ذرا منزل کو دیکھیں

سنا ہے اس کی اونچائی بہت ہے

بظاہر مجھ سے وہ رہتا ہے نا خوش

مگر میرا وہ شیدائی بہت ہے

کہاں ہے غم کے ماروں کا ٹھکانہ

نسیم! عالم تماشائی بہت ہے


سمیعہ نسیم

No comments:

Post a Comment