دل ناداں تمنائی بہت ہے
سنا ہے وہ بھی ہرجائی بہت ہے
وفا کی آس میں اک عمر گزری
جفا میں اس کی گہرائی بہت ہے
تلاطم خیز ہے طوفاں میں کشتی
سمندر سے شناسائی بہت ہے
چلو چل کر ذرا منزل کو دیکھیں
سنا ہے اس کی اونچائی بہت ہے
بظاہر مجھ سے وہ رہتا ہے نا خوش
مگر میرا وہ شیدائی بہت ہے
کہاں ہے غم کے ماروں کا ٹھکانہ
نسیم! عالم تماشائی بہت ہے
سمیعہ نسیم
No comments:
Post a Comment