میرے گھر کے بام و در بھی مجھ سے تیرا پُوچھتے ہیں
شہر کے شام و سحر بھی مجھ سے تیرا پوچھتے ہیں
کیا بتاؤں لوٹ آیا ہوں تِرے کوچے سے یوں
رکھے جو دل پر حجر بھی مجھ سے تیرا پوچھتے ہیں
تُو ہی کہہ دے کیا بتاؤں ان کو میں تیرا پتہ؟
جو نہیں تھے با خبر وہ بھی مجھ سے تیرا پوچھتے ہیں
موتیوں کی طرح جیسے اشک بہتے ہیں مِرے
آنکھ سے گِرتے گُہر بھی مجھ سے تیرا پوچھتے ہیں
چھوڑ آیا ہے کسی مُخلص کو اے حمزہ! کہاں؟
اپنے سب نُورِ نظر بھی مجھ سے تیرا پوچھتے ہیں
حمزہ علی شاہ
No comments:
Post a Comment