Friday, 31 October 2025

دل کی تختی سے مری یاد کھرچنے والے

 دل کی تختی سے مِری یاد کھرچنے والے

اس قدر جلد نہیں نقش یہ مٹنے والے

پھر کسی یاد کا پودا نہ لگانا دل میں

جان لیوا ہیں شگوفے بھی یہ کھلنے والے

گھپ اندھیروں کا تدارک بھی ضروری ٹھہرا

شب کے پہلو سے ہیں تارے بھی نکلنے والے

بُور چاہت کا درختوں پہ لگا دیکھا ہے

شاخ امید پہ ہیں پھول بھی کھلنے والے

جب پکارا ہے تِرے نام کو اے رب کریم

کام بنتے ہی چلے جائیں بگڑنے والے

اب تو تدبیر نئی ڈھونڈنی ہو گی احسن

صرف باتوں سے نہیں ہیں وہ بہلنے والے


ذوالفقار احسن

No comments:

Post a Comment