Thursday, 16 October 2025

کچھ لوگ جو حاصل ہوں گنوائے نہیں جاتے

 کچھ لوگ جو حاصل ہوں گنوائے نہیں جاتے

اس طرح خزانے تو لٹائے نہیں جاتے

امرت تِری باتوں کا ہی کافی ہے اجل کو

یوں زہر پیالے تو پلائے نہیں جاتے

کیوں ہم سے ہوئے جاتے ہو انجان اچانک

اس طرح تو پیمان بھلائے نہیں جاتے

جیسے تِری یادوں کو سجایا ہے قفس میں

ایسے تو شبستاں بھی سجائے نہیں جاتے

رہتے ہیں کسک بن کے تِری یاد کے جگنو

اس دل سے تِری یاد کے سائے نہیں جاتے

کوئی اسے بتلائے کہ آ جائے، وگرنہ

اب ہم سے دِیے اور جلائے نہیں جاتے

جس طرح دل سوختہ کو میں نے سُلایا

اس طرح تو بچے بھی سُلائے نہیں جاتے

شاکر! میں وہ انداز جفا بھُول تو جاؤں

جو نقش ہیں دل پر وہ مٹائے نہیں جاتے


محمد عثمان شاکر

No comments:

Post a Comment