عارفانہ کلام حمد نعت منقبت
بدل جاتے ہیں اس کے باطنی حالات طیبہ میں
گزارے جو خلوصِ قلب سے کچھ رات طیبہ میں
متاعِ نور نے اس کو نوازا اپنے جلووں سے
سجا کر لے گیے اشکوں کی جو بارات طیبہ میں
انہیں دیکھے گا کب محروم ہے جو نور باطن سے
نمایاں آج بھی ہیں عشق کی آیات طیبہ میں
وہاں تو رحمتِ عالم کی رحمت خود محافظ ہے
سما سکتی ہیں کیسے پھر کبھی آفات طیبہ میں
جوارِ کعبہ میں ہوتا ہے عالمِ جوش و مستی کا
جنوں کے سرد پڑ جاتے ہیں سب جذبات طیبہ میں
فضا کعبہ کی روشن اور تاباں جس کے دم سے ہے
اسی کے نور کی ہر آن ہے برسات طیبہ میں
نہ جانے کب نگاہوں میں سمائے جلوۂ زیبا
لگا کر اہل دہل بیٹھے ہوئے ہیں گھات طیبہ میں
سمجھتا ہوں میں اس کو زندگی کا ایک ہی لمحہ
گزاری یوں تو میں نے دس مقدس رات طیبہ میں
بلا کر جلد پھر اے سرورِ کونینﷺ شبنم کو
عطا دیدار کی اپنے کریں خیرات طیبہ میں
شبنم کمالی
مصطفیٰ رضا
No comments:
Post a Comment