عشق میں ڈوب کے یہ حال ہے پروانے کا
خوف مرنے کا نہ کچھ شوق جِیے جانے کا
کون مانے گا کہ یہ خواب ہے دِیوانے کا
زندگی نام ہے محبوب کو پا جانے کا
پھول کمہلائے ہوئے خشک ہے ڈالی ڈالی
نام ہی نام ہے گلشن میں بہار آنے کا
جن کو آ جائے نظر نورِ صداقت کی جھلک
فکر کیوں ہو انہیں دنیا سے چلے جانے کا
جام و مِینا کی کرے بات وہ کیوں کر عاقل
جس نے دیکھا ہی نہ ہو در کبھی میخانے کا
دھرم پال عاقل
No comments:
Post a Comment