Friday, 17 October 2025

سائے سے حوصلے کے بدکتے ہیں راستے

 سائے سے حوصلے کے بدکتے ہیں راستے

آگے بڑھوں تو پیچھے سرکتے ہیں راستے

آنسو ہزار ٹوٹ کے برسیں تو پی کے چپ

اک قہقہہ اڑے تو کھنکتے ہیں راستے

سمجھو تو گھر سے گھر کا تعلق انہی سے ہے

دیکھو تو بے مقام بھٹکتے ہیں راستے

دامن میں ان کے پاؤں کے ایسے نشاں بھی ہیں

رہ رہ کے جن کے دم سے دمکتے ہیں راستے

تاروں کی چھاؤں نرم ہے سن لیتی ہے پکار

دن بھر کی دھوپ میں جو بلکتے ہیں راستے

راہی چلیں جو ہم تو چلے آئیں یہ بھی ساتھ

قدموں کی پیٹھ پر ہی ٹھٹکتے ہیں راستے


رام پرکاش راہی

No comments:

Post a Comment