Tuesday, 28 October 2025

پریشاں ہیں خرد مندوں کی حیرانی نہیں جاتی

 پریشاں ہیں خرد مندوں کی حیرانی نہیں جاتی

مٹائی عقل سے تحریر پیشانی نہیں جاتی

بھلاتا ہوں انہیں جتنا وہ اتنے یاد آتے ہیں

خلش زخم محبت کی بہ آسانی نہیں جاتی

اگر ہو شیشۂ دل صاف تو دم بھر میں کھل جائے

حقیقت کیوں خدائے پاک کی جانی نہیں جاتی

مقدر میں جو لکھا ہے وہ بدلا ہے نہ بدلے گا

خدائی حکم میں حجت کوئی مانی نہیں جاتی

کسی کا جلوۂ رنگیں کہیں اک بار دیکھا تھا

مگر اب تک نگاہوں کی وہ حیرانی نہیں جاتی

ہوس دیدار کی دل سے جو نکلے بھی تو کیا نکلے

بہار حسن کی جب جلوہ سامانی نہیں جاتی

حیات چند روزہ کے تماشوں میں ہیں غم ایسے

ہمارے دل سے حرص عالم فانی نہیں جاتی

ہماری زندگی ہے اک بہار بے خزاں عاقل

ہمارے طائر دل کی غزل خوانی نہیں جاتی


دھرم پال عاقل

No comments:

Post a Comment