Tuesday, 28 October 2025

بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا

 بندشیں توڑ کے ایسا تو نکل آیا تھا

چاند جیسے کہ فلک سے یہ پھسل آیا تھا

میرا یہ دل جسے پتھر بھی بہت نرم لگے

برف جیسا مِرے سینے میں پگھل آیا تھا

ایسی وادی سے بھلا کون پلٹ کر آئے

ایک بچہ ہی سا تھا میں جو نکل آیا تھا

تم کو اندر کی بغاوت کا کوئی علم نہیں

جسم کو پیٹھ پہ رکھا تھا تو چل پایا تھا

ہاں میں رویا تھا نکلتے ہوئے اس روز مگر

تیرے ماتھے پہ بھی تھوڑا سا تو بل آیا تھا

ایک چھوٹی سی گزارش مِری اب وقت سے ہے

بار بار آیا کرے جیسے وہ کل آیا تھا


صلاح الدین ایوب

No comments:

Post a Comment