خیر اندیش بنے، حق کی مذمت نہ کرے
خون اپنا ہے تو اپنوں سے بغاوت نہ کرے
ریشم و اطلس و کمخواب میں پلنے والا
ہم فقیروں سے الجھنے کی حماقت نہ کرے
بے وفائی کا اگر حسن کی کھل جائے بھرم
کوئی بھولے سے بھی اقرارِ محبت نہ کرے
ایسے آئین کو ٹھکرا کے چلا جاؤں گا
بے نواؤں کی جو پر زور حمایت نہ کرے
پس اسی شکل میں دونوں کی گزر سکتی ہے
میں بھی شکوہ نہ کروں تو بھی شکایت نہ کرے
مجھ کو تنہائی کے زنداں میں مقید کر دو
جب تلک آپ کا احساس ملامت نہ کرے
نا خدا! سوچ ذرا ڈوب کے گہرائی میں
بغض کی لہر اٹھے اور شرارت نہ کرے
رشتۂ مہر و وفا اور بھی مضبوط کرو
تاکہ انساں کسی انسان سے نفرت نہ کرے
یوں نہ کھیلو مرے جذبات سے تم شام و سحر
میں ہوں دیوانہ مجھے کوئی نصیحت نہ کرے
سبز گنبد کی گھنی چھاؤں جو ہوجائے نصیب
مفتئ شہر کبھی خواہشِ جنت نہ کرے
عبدالستار مفتی
No comments:
Post a Comment