چھوڑ دے مانگنے کی ادا چھوڑ دے
اپنا حق چھین لے التجا چھوڑ دے
چھوڑ دے اب مِرا تذکرہ چھوڑ دے
کچھ دنوں کو مجھے لاپتہ چھوڑ دے
ناخداؤں کا اب آسرا چھوڑ دے
اپنی کشتی بہ نام خدا چھوڑ دے
عشق میں قرب ہی عشق کی موت ہے
قربتوں میں بھی کچھ فاصلہ چھوڑ دے
یہ بھی ممکن نہیں وہ بھی ممکن نہیں
میں وفا چھوڑ دوں تو جفا چھوڑ دے
اپنا دامن بچا فکر میری نہ کر
تُو مِرے گھر کو جلتا ہوا چھوڑ دے
بے وفا زندگی کا بھروسا ہی کیا
یہ نہ جانے کہاں کس جگہ چھوڑے دے
کوئی رہ رہ کے آواز دے ہے مجھے
زندگی! اب مِرا راستہ چھوڑ دے
اے عزیز! اب کسی کو بھروسا نہیں
جانے کب کون شوشہ نیا چھوڑ دے
عزیز نہٹوری
No comments:
Post a Comment