Wednesday, 22 October 2025

اپنا حق چھین لے التجا چھوڑ دے

 چھوڑ دے مانگنے کی ادا چھوڑ دے

اپنا حق چھین لے التجا چھوڑ دے

چھوڑ دے اب مِرا تذکرہ چھوڑ دے

کچھ دنوں کو مجھے لاپتہ چھوڑ دے

ناخداؤں کا اب آسرا چھوڑ دے

اپنی کشتی بہ نام خدا چھوڑ دے

عشق میں قرب ہی عشق کی موت ہے

قربتوں میں بھی کچھ فاصلہ چھوڑ دے

یہ بھی ممکن نہیں وہ بھی ممکن نہیں

میں وفا چھوڑ دوں تو جفا چھوڑ دے

اپنا دامن بچا فکر میری نہ کر

تُو مِرے گھر کو جلتا ہوا چھوڑ دے

بے وفا زندگی کا بھروسا ہی کیا

یہ نہ جانے کہاں کس جگہ چھوڑے دے

کوئی رہ رہ کے آواز دے ہے مجھے

زندگی! اب مِرا راستہ چھوڑ دے

اے عزیز! اب کسی کو بھروسا نہیں

جانے کب کون شوشہ نیا چھوڑ دے


عزیز نہٹوری

No comments:

Post a Comment