ریت کی چادر اوڑھ کے سوئیں صحرا میں
دن بھر اپنے خواب جو بوئیں صحرا میں
دریا ہم کو ساحل پہ لا پھینکے گا
ہم تم اپنا آپ ڈبوئیں صحرا میں
ہجر کی جگمگ جگمگ کرتی تیغ میں ہم
سانسوں کا اک ہار پروئیں صحرا میں
خشک ہوئے جاتے ہیں آنکھوں کے چشمے
کیسے دل کے داغ کو دھوئیں صحرا میں
صحراؤں کی تشنہ لبی کا توڑ بنیں
آؤ ہم دل کھول کے روئیں صحرا میں
حسن سیف
No comments:
Post a Comment