Sunday, 26 October 2025

تو یاد آیا اور مری آنکھ بھر گئی

 تُو یاد آیا اور مِری آنکھ بھر گئی

اکثر تِرے بغیر قیامت گزر گئی

اول تو مُفلسوں کی کوئی آرزو نہیں

پیدا کبھی ہوئی بھی تو گُھٹ گُھٹ کے مر گئی

اک عشق جیسے لفظ میں مُضمر ہو کائنات

اک حُسن جیسے دُھوپ چڑھی اور اُتر گئی

ناز و ادا سے پاؤں اٹھے اور لرز گئے

اچھا ہوا کہ اس کی بلا اس کے سر گئی

طارق تصورات میں آہٹ سی کیا ہوئی

جلتے گئے چراغ جہاں تک نظر گئی


شمیم طارق

No comments:

Post a Comment