Wednesday, 15 October 2025

نہ ہم سے پوچھیے آخر سفر سے کیا کما لائے

 نہ ہم سے پوچھیے آخر سفر سے کیا کما لائے

غنیمت یہ رہی طوفاں سے بس کشتی بچا لائے

گزارے ہیں جو دن ہم نے تمہیں محسوس تب ہوں گے

تمہاری بھی کبھی وہ زندگی میں دن خدا لائے

تمہاری بزم میں جا کر ہمیں تحفہ ملا ہے یہ

بہت سی تہمتیں بے داغ دامن پہ لگا لائے

نہ موسم ہی مناسب تھا نہ مانجھی ہی سلیقے کا

ندی ہم پار کیا کرتے قدم واپس بڑھا لائے؟

ببولوں کے کٹیلے جنگلوں میں یوں سفر گزرا

بدن سب ہو گیا گھائل، مگر پگڑی بچا لائے


دویش دکشت دیو

No comments:

Post a Comment