نہ ہم سے پوچھیے آخر سفر سے کیا کما لائے
غنیمت یہ رہی طوفاں سے بس کشتی بچا لائے
گزارے ہیں جو دن ہم نے تمہیں محسوس تب ہوں گے
تمہاری بھی کبھی وہ زندگی میں دن خدا لائے
تمہاری بزم میں جا کر ہمیں تحفہ ملا ہے یہ
بہت سی تہمتیں بے داغ دامن پہ لگا لائے
نہ موسم ہی مناسب تھا نہ مانجھی ہی سلیقے کا
ندی ہم پار کیا کرتے قدم واپس بڑھا لائے؟
ببولوں کے کٹیلے جنگلوں میں یوں سفر گزرا
بدن سب ہو گیا گھائل، مگر پگڑی بچا لائے
دویش دکشت دیو
No comments:
Post a Comment