کاٹ کر اشجار دھرتی پر گراتے ہو حضور
نام اپنا قاتلوں میں خود لکھاتے ہو حضور
جب یہ دھرتی پر ہیں گرتے لڑکھاتے چیختے
کس قدر اس وقت تم خوشیاں مناتے ہو حضور
پھول جب اک شاخ سے توڑو تو یہ بھی سوچنا
گود سے تم ماں کی بچّے کو چھڑاتے ہو حضور
سانس لیتے ہو بہ آسانی تم ان کے ہی طفیل
قبر اپنی اپنے ہاتھوں کیوں بناتے ہو حضور
رحمتِ پروردگاری میں مخل ہو نا درست
وقت سے پہلے ہی خود کو کیوں مٹاتے ہو حضور
سرکشی ظلم و ستم ساجد ہے خو انسان کی
تم نہیں تنہا جو یہ سب کر دکھاتے ہو حضور
ساجد شاہجہانپوری
No comments:
Post a Comment