گزر جاتے ہیں جو نظریں بچا کر بے خبر ہو کر
وہ کیا درماں کریں گے درد دل کا چارہ گر ہو کر
نہیں صیّاد کا شکوہ، یہی منظورِ قدرت تھا
قفس ہی میں ہمیں رہنا تھا یوں بے بال و پر ہو کر
زمانے بھر میں ہو آئے تمہاری دِید کی خاطر
چراغِ آرزو بن کر،۔ تمنائے نظر ہو کر
بُرا ہو بے خودی کا ہم رہے محرومِ نظارہ
گزرنے کو ہزاروں بار وہ گزرے ادھر ہو کر
مقدّر میں جو ہوتا ہے لکھا ہو کر ہی رہتا ہے
مِری آہیں پلٹ آئیں فلک سے بے اثر ہو کر
کہاں سے کس طرح کس وقت کھنچ کر لوگ آ پہنچے
وہیں لگتے گئے میلے، کوئی گزرا جدھر ہو کر
سخن دانوں نے لاکھوں شعر کہہ ڈالے مگر عاقل
نہیں وہ شعر جو اترے نہ دل میں نیشتر ہو کر
دھرم پال عاقل
No comments:
Post a Comment