پوچھتے ہیں وہ ہمیں درد کہاں اُٹھتا ہے
اک جگہ ہو تو بتا دوں کہ یہاں اٹھتا ہے
بزم ہستی سے تو اٹھنے کا ہے دستور قدیم
دُکھ بڑا ہوتا ہے جب کوئی جواں اٹھتا ہے
جم کے بن جاتا ہے اک اور فلک زیر فلک
حسرتوں کا جو مِرے دل سے دھواں اٹھتا ہے
لوں کسی کا میں سہارا یہ گوارہ بھی نہیں
بیٹھ جاتا ہوں وہیں درد جہاں اٹھتا ہے
روز کُٹیا سے بہت رات گئے تیری جلال
کوئی دیوانہ ہے جو نالہ کُناں اٹھتا ہے
جلال ہری پوری
قاضی محمد جلال الدین
No comments:
Post a Comment