Saturday, 18 October 2025

پھر وہی رات جو تنہائی کے آغوش رہی

 پھر وہی رات جو تنہائی کے آغوش رہی

اک انیدی سی غزل خواب میں مدہوش رہی

ہم سے وہ اجنبی اور ان سے تھے انجانے ہم

تا ابد یوں ہی محبت یہ فراموش رہی

پردۂ چشم میں یادوں کے ذخیرے پر شور

جھانکتی ان سے جو تنہائی وہ خاموش رہی

جب تلک پہنچی نہ وہ محفلوں سے محفلوں میں

تب تلک میری وہ رسوائی بھی پرجوش رہی

کیوں ہو شرمندہ وہ انساں کے جرائم پر یوں

کیوں زمیں شب کی سیاہی میں ردا پوش رہی

آنکھ پہ چھائے ہیں ارمان جو تھے زیر دل

داستاں ہر یہاں ہو کے دھواں روپوش رہی

بات پھسلی تھی جو کانوں میں زباں سے لٹکی

طوق بن کے وہ ہی تا عمر سر دوش رہی


دویا جین

No comments:

Post a Comment