Friday, 24 October 2025

تیرے لیے یہ دل کبھی پتھر نہیں ہوا

 تیرے لیے یہ دل کبھی پتھر نہیں ہوا

تیری طلب رہی، تُو ہمسفر نہیں ہوا

تِرے انتظار میں کئی برسوں گزر گئے

تِری دِید کا اک پل بھی میسر نہیں ہوا

تم جیسے کی تلاش میں پھرتی رہی برسوں

تِرے سوا کوئی نظروں کا محور نہیں ہوا

جسے دیکھ کے تھم جاتی ہیں وقت کی نبضیں

دنیا میں کوئی تجھ سا وہ گُہر نہیں ہوا

تخلیق ہے آدم کی محبت کی خاک سے

چاہت نہ ہو دل میں ایسا بشر نہیں ہوا

جو کھیل ہی میں ہار دے جان کی بازی

وہ کبھی قسمت کا سکندر نہیں ہوا

محبت کی مسافت کو سمجھے گا بھلا کیسے

جو راہِ محبت میں مسافر نہیں ہوا

وہ دل بھی زمانے میں کسی کام کا نہیں

وہ دل جو محبت کا سمندر نہیں ہوا


انعم نقوی

No comments:

Post a Comment