Thursday, 30 October 2025

کوئی شکوہ نہ شکایت ہے بچھڑنے والے

 کوئی شکوہ نہ شکایت ہے بچھڑنے والے

بے وفائی تِری عادت ہے بچھڑنے والے

ہم جو زندہ ہیں تو زندہ بھی نہیں ہیں دیکھو

اک بپا روز قیامت ہے بچھڑنے والے

میری سانسوں کی روانی کا سبب پوچھتے ہو

تیرے چہرے کی تلاوت ہے بچھڑنے والے

چین تم کو جو نہیں آتا کسی بھی لمحے

یہ محبت کی علامت ہے بچھڑنے والے

مجھ کو کردار میسّر نہیں افسانے میں

یہ کہانی میں قباحت ہے بچھڑنے والے

تُو جو بچھڑا ہے اسے ساتھ ہی لے جانا تھا

دل کہ تیری ہی امانت ہے بچھڑنے والے

اپنا عشّاق قبیلے سے تعلق گہرا

غم کی جاگیر وراثت ہے بچھڑنے والے

میرا دعویٰ تھا بچھڑ کر نہ جیوں گا لیکن

اب جو زندہ ہوں نِدامت ہے بچھڑنے والے

قلبِ شاہی پہ جو چلتا ہے تو سِکہ تیرا

دل پہ تیری ہی حکومت ہے بچھڑنے والے


ذوالفقار احسن

No comments:

Post a Comment